۲۹ شهریور ۱۴۰۳ |۱۵ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 19, 2024
نواب شجاع الدولہ بہادر

حوزہ/نواب صفدر جنگ کی موت کے بعد انکے فرزند مرزا جلال الدین حیدر شجاع الدولہ بہادر۱۱۶۶ھ؁ مطابق ۱۷۵۲؁ء میں ۲۴ برس کی عمر میں بہ مقام فیض آباد تخت نشین ہوئے۔شجاع الدولہ شاہ جہان آباد میں ۱۹جنوری ۱۷۳۲ء؁ مطابق ۱۱۴۴ھ؁ کو شہزادہ داراشکوہ کے محل میں متولد ہوئے۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی| نواب صفدر جنگ کی موت کے بعد انکے فرزند مرزا جلال الدین حیدر شجاع الدولہ بہادر۱۱۶۶ھ؁ مطابق ۱۷۵۲؁ء میں ۲۴ برس کی عمر میں بہ مقام فیض آباد تخت نشین ہوئے۔شجاع الدولہ شاہ جہان آباد میں ۱۹جنوری ۱۷۳۲ء؁ مطابق ۱۱۴۴ھ؁ کو شہزادہ داراشکوہ کے محل میں متولد ہوئے۔

یہ محل برہان الملک نواب سعادت خاں کو بادشاہ دہلی کی طرف سے رہائش کے لئے ملا تھا۔بچپن نانا سعادت خاں کی شفت اور محبت کے زیرسایہ گذرا۔رسم مکتب نشینی کی تفصیل تو کسی کتاب میں مندرج نہیں لیکن ہندوستانی رواج کے مطابق پانچویں سال میں بسم اللہ ہوئی ہوگی ۔ان کی تعلیم کے لئے تین معلموں کا تقررہوا۔جس وقت ان کی عمر بیس سال ہوئی تو ایک مشہور ایرانی عالم شیخ محمد حسین کو ان کی تعلیم کے لئے متعین کیاگیامگر وہ شجاع الدولہ کی مذہبی تعلیم کی طرف بے رغبتی دیکھ کر پٹنہ چلے گئے ۔(شجاع الدولہ جلد۱ص۲)اس روایت کو چودھری سبط محمد نقوی درست نہیں مانتے کیونکہ اس وقت شجاع الدولہ لکھنؤ کے بجائے دہلی میں رہتے تھے ۔(امجد علی شاہ ص۱۸)سولہہ برس کی عمر میں انہیں دہلی سلطنت کی طرف سے اہم فرائض تفویض کئے جاچکے تھے اور شجاع الدولہ کا خطاب مل چکاتھا،لہذا اس کے بعد ان کی تعلیم و تربیت کے لئے کسی اتالیق کا مقررہونا بعید از قیاس معلوم ہوتاہے ۔لیکن ایسانہیں ہے کہ شجاع الدولہ علم و ادب سے بے بہرہ رہے بلکہ فارسی زبان و ادب پر انہیں مکمل دسترس تھی ۔ترکی اور عربی زبان پربھی قدرت رکھتے تھے ۔مراٹھی اور ہندی سے بھی واقف تھے اور قدرے انگریزی بھی سمجھ لیتے تھے ۔علم ریاضی کس سے پڑھاتھانہیں معلوم مگر استعداد ایسی تھی کہ سلطنت کے تمام حساب و کتاب کی جانچ پڑتال خود ہی کرلیتے تھے۔(لکھنؤ کی تہذیبی میراث ص ۵۲)

شجاع الدولہ کو ۱۶ جولائی ۱۷۴۸ء کونوعمری میں میر آتش کا بلند منصب عطاہوا۔اس منصب کی بدولت انہیں دہلی اور اودھ میں شہرت حاصل ہوئی ۔۱۷۵۰؁ء میں انہوں نے احمد خاں بنگش سے جنگ لڑی اور دوسری بار فروری ۱۷۵۱؁ء میں دوآبے کے پٹھانوں کے خلاف معرکہ لڑا۔اس کےبعد انہیں ۱۷۵۱؁ء سے ۱۷۵۲ء ؁ تک قائم مقام وزیر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملالیکن اقتدار خواجہ سرا جاوید خاں کے پاس رہا۔خواجہ سرا جاوید خاں کو صفدر جنگ نے ٹھکانے لگایا لیکن دربار میں ان کے مخالفوںاور دشمنوں کی تعداد کم نہیں ہوئی ۔صفدر جنگ دشمنوں کی سازشوں سے تنگ آکر اودھ چلے آئے اور یہیں ان کا انتقال ہوا۔ان کےانتقال کے بعد جب شجاع الدولہ تخت نشین ہوئے تو دہلی سلطنت اور اودھ کے درمیان خوشگوار تعلقات موجود نہیں تھے ۔لیکن نواب نے اپنی ذہانت اور فطانت سے دشمنوں کو مہارکیا اور ایک بارپھر دہلی سے تعلقات کو سازگاربنایا۔تخت نشینی کے بعد اسماعیل خاں کابلی ان کا مدارالمہام ہواجس نے مغلیہ سرداروں کو نواب سے برگشتہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ انہیں قابو کیاجاسکے ۔مگر بہت جلد شجاع الدولہ نے اپنی فراست اور معاملہ فہمی کے ذریعہ اس کو زیر کردیا۔(بوستان اودھ از راجہ درگا پرشاد ص۲۱)

شجاع الدولہ کا عقد بادشاہ دہلی کی ایماپر موتمن الدولہ محمد اسحاق خاں شوستری کی صاحب زادی امۃ الزہرا بیگم سے ہوا جو بعد کو بہوبیگم کے خطاب سے مشہور ہوئیں ۔بہوبیگم کا رشتہ بادشاہ دہلی نے بذات خود صفدر جنگ کی خدمت میں ان کے بیٹے کے لئے پیش کیاتھا،اس لئے اس پیشکش کو مسترد کرنا آسان نہیں تھا۔اس کی مکمل روداد نجم الغنی سے سنئیے:

’’بادشاہ نے بھی ارشاد کیاکہ نجم الدولہ کی بھی ایک بہن موجود ہے اور اس کا سلسلۂ نسب حلیمۂ مرضعۂ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو پہونچتاہے ۔ہمارے نزدیک یہ بہترہے کہ شجاع الدولہ کا بیاہ نجم الدولہ کی بہن کے ساتھ ہوجائے ۔صفدر جنگ نے عرض کی حضور کا حکم غلام کے سروچشم پر ۔بادشاہ نے فرمایا وہ لڑکی میری لڑکی ۔صفدر جنگ نے آداب تسلیم کیا۔چنانچہ ۱۱۵۸ھ؁ میں شادی قرار پائی ۔بڑی دھوم سے شادی ہوئی ۔۴۶ لاکھ روپے صرف ہوئے ۔صفدر جنگ نے اپنی خوشی اور بادشاہ کی خوشنودی کے لئے بڑا کرّو فر کیاتھا۔یہاں تک کہ ساچق کے دن ایک ہزار اور کئی سو گھڑے چاندی کے تیار کرا کے عروس کے گھر بھجوائے۔ہر ایک گھڑا سو روپیہ سے کم میں تیار نہ ہواتھا۔‘‘(تاریخ اودھ جلد۱ص۱۳۰۔مزید تفصیل کے لئے دیکھیے :تاریخ شاہیہ نیشاپور ص۱۴)

صفدر جنگ نے فقط بادشاہ کی خوشنودی کے لئے یہ رشتہ قبول نہیں کیا تھا بلکہ موتمن الدولہ کی لڑکی کی پاک بازی اور ذاتی صلاحیتوں کا شہرہ بھی اس رشتے کا سبب ہوا۔اسحاق خان کے والد ایران کے معروف شیعوں میں شمار ہوتے تھے ۔گوکہ اسحاق خاں کی ولادت ہندوستان میں ہوئی مگر ایرانی نژاد ہونے کی بنیاد پر صفدر جنگ نے اس رشتے کو ترجیح دی ۔موتمن الدولہ کو بادشاہ کی خدمت میں بڑا تقرب حاصل تھا۔دیوانی خالصہ کی خدمت ان کے سپرد تھی ۔بادشاہ کو جتنا اعتماد ان پر تھا کسی دوسرے پر نہیں تھا۔۱۱۵۲؁ھ کو ان کا انتقال ہوا۔شعر و شاعری سے انہیں گہرا شغف تھا ۔ان کا ایک شعر اس طرح مذکور ہوا ہے ؎

زبسکہ دل تنگم خیال آںگل بود نفیر خواب من امشب صفیر بلبل بود

(اودھ میں اردو ادب کا تہذیبی اور فکری پس منظر از محمد حسن ص۱۳)

بہو بیگم نہایت ذہین ،سلیقہ شعار اور سیاست مدار خاتون تھیں ۔اسی حسن تدبیر اور سیاسی شعور کی بنیاد پر وہ اپنےشوہر شجاع الدولہ کی موت کے بعد انگریزی حیلوں کا مقابلہ کرتی رہیں۔اگر ان کے فرزند آصف الدولہ انگریز وں کے ورغلانے اور دولت کی ہوس میں ان کی مخالفت پر کمر بستہ نہ ہوتے تو بیگم کبھی انگریز ی چالوں کو کامیاب نہ ہونے دیتیں ۔مگر آصف الدولہ کے سامنے ان کی ہر حکمت عملی غیر موثر ثابت ہوئی اور نواب تادم آخر اپنی ماں کے لئے مشکلات کھڑی کرتے رہے ۔اس کے باوجود بہو بیگم نے اپنے وقار اور تمکنت پر کوئی آنچ نہیں آنے دی ۔ان کے سیاسی اور سماجی وقار کا تذکرہ کرتے ہوئے تصدق حسین تحریر کرتے ہیں :

’’جب وہ محل سرا کے باہر کسی ضرورت سے جاتی تھیں تو ان کی سواری کے جلو میں کثرت سے عصا بردار ہوتے جو نفیس اور ستھری پوشاک پہنے ہوتے اور ہاتھیوں کی ایک لمبی قطار بھی جلوس میں ہوتی تھی جن میں سے بعضوں پر نقارے بجتے ہوتے اور بعضوں پر پھریرے لہراتے ہوتے ۔یہ کل جلوس خوش تربیتی سے آہستہ آہستہ حرکت کرتا تھا۔بیگم کے معاملات میں ہمیشہ صفائی رہتی ظلم و ستم کا کبھی شائبہ بھی نہ پایا جاتا۔ان کےکل ملازمین نہایت اطمینان اور فارغ البالی سے زندگی بسر کرتے تھے ۔‘‘(بیگمات اودھ از تصدق حسین ص۳۲۔مزید تفصیل آصف الدولہ کے باب میں بیان ہوگی)

شجاع الدولہ کا عہد طفلی دہلی میں گذرا۔نوجوانی فیض آباد اور لکھنؤ میں بسر ہوئی ۔اس لئے انہیں بیک وقت دہلی اور اودھ کے سیاسی نشیب و فراز کا علم تھا۔البتہ نوجوانی کے ابتدائی ایام سیر و تفریح اور حرم کی دلچسپیوں میں گذرے اور کیوں نہ گذرتے بالآخر وہ بھی دہلی کے شاہزادوں کے مذاق سے عاری نہیں تھے ۔ بقول صفدر حسین :

’’اول اول ان کا قیام مستقل لکھنؤ میں رہاجہاں وہ زیادہ تر حرم کی دلچسپیوں، سیر وشکار کے مشغلوں اور مختلف تفریحوں میں محو رہتے تھے لیکن اس سرخوشی کے زمانے میں بھی وہ سیاسی ذمہ داریوں سے بے خبر نہ رہے ۔انہوں نے بنارس کے راجہ بلونت سنگھ کی بغاوت فروکی ۔۱۷۵۹؁ء میں مرہٹوں کے سردار گووند پنتھ کو چاند پور کے مقام پر شکست دی اور احمد شاہ ابدالی کے شریک ہوکر پانی پت میں مرہٹوں کی فوجی تنظیم ہمیشہ کے لئے توڑ دی۔ اس فتح کے صلے میں احمد شاہ ابدالی نے انہیں سلطنت دہلی کا وزیر مقرر کردیا۔‘‘(لکھنؤ کی تہذیبی میراث ص۴۷)

چونکہ نواب کی ولادت دہلی میں ہوئی تھی اس لئے ہمیشہ انہیں دہلی کی آب و ہوا پسند خاطر رہی۔دہلی میں ان کے قیام کا ایک مقصد برہان الملک اور صفدر جنگ کی طرح اپنے منصب کا تحفظ اور درباری سازشوں کا سدّباب کرنا تھا۔ان کے والد کے سیاسی حریفوں کی بڑی تعداد دہلی میں موجود تھی جن کی نگاہوں میں ہمیشہ شجاع الدولہ کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے ۔صفدر جنگ کے متبنیٰ غازین الدین خان عماد الملک جو ہمیشہ شجاع الدولہ کے سیاسی حریف رہے ،ان کے دہلی میں قیام کی بڑی وجہ بنے رہے۔عماد الملک کے فتنہ و فساد نے سر اٹھایا تو شاہ عالم بھی دہلی میں ٹھہر نہیں سکے اور دہلی چھوڑ کر سہارن پور نجیب الدولہ کے پاس چلے گئے ۔نجیب الدولہ نے تقریباً آٹھ ماہ تک ان کی میزبانی کی ۔اس کے بعد بنگال کی تسخیر کے ارادے سے وہ صوبہ ٔ اودھ پہونچے اور موہان میں قیام کیا۔شجاع الدولہ نے ان کی تعظیم و تکریم میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا اور اصالت خان و محل دار خان کی معرفت پچاس ہزار روپیہ نقد ،ہاتھی گھوڑوں اور دیگر تحائف کے ساتھ روانہ کیا۔اس کے بعد بذات خود ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مختلف مسائل پر تبادلۂ خیال کیا۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:تاریخ اودھ جلد۲ص۹)

شجاع الدولہ کا عہد سیاسی اور سماجی کسمپرسی کا عہد تھا۔دہلی میں ہر طرف سازشیں اور شورشیں ہورہی تھیں ۔سادات بارہہ کا دبدبہ ختم ہواتو مرہٹے اور سکھ سرکشی پر آمادہ تھے ۔اس پر بیرونی حملوں کا ڈر الگ تھا ۔اقتصاد کی کمر ٹوٹ چکی تھی ۔عوام پر ٹیکس کا بوجھ بڑھتا جارہا تھا اور حکمرانوں کو اس کی یکسر پرواہ نہیں تھی ۔دہلی سلطنت جمود کا شکار تھی بلکہ حالت نزع میں تھی ۔اس کے برعکس اودھ خوش حالی اور امن کا گہوارہ بنا ہوا تھا ۔اس لئے مرکز کی صوبۂ اودھ سے ڈھیروں امیدیں وابستہ تھیں ۔خاص طور پر مالی پریشانیوں کی صورت میں نواب وزیر سلطنت دہلی کی بھرپور اعانت کرتے تھے ۔برہان الملک اور صفدر جنگ نے اودھ میں جس قدر خوش حالی اور امن کو فروغ دیاتھا ،شجاع الدولہ اس میں اضافہ تو نہ کرسکے مگر اس کی بقا کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ۔انہیں بیک وقت مختلف محاذوں پر نبرد آزما رہنا پڑا مگر نواب نے کبھی ہمت نہیں ہاری ۔خاص طور پر انگریزوں کی سازشوں کا بہادری سے مقابلہ کیا ۔امیر علی خان نواب کی حصولیابیوں اور امن کی کوششوں پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’در سال یک ہزار یک صد ہفتاد و سہ ہجری منصب والای وزارت ہند بذات فیض آیاتش قرار گرفت و بہ وزیر الممالک شجاع الدولہ ابوالمنصور خان بہادر اسد جنگ مخاطب گردید و علاوہ صوبۂ اختر نگر اودھ دیگر بسااضلاع و اقطاع راکہ حدود چکلہ کوڑہ و فتح پور و اٹاوہ و بنارس و مرزاپور و اعظم گڑھ و فرخ آباد و بریلی و رامپور و مرآدباد و پیلی بھیت می باشد۔درصلۂ حسن سرانجام مہمات بدست آورد وملحق بہ حوزۂ تصرف خود کرد و تمام اطراف و اکناف رابہ مساعی جمیلہ خود از تندبادحوادث وموج خیز طوفان بی تمیزی ہا وارہانیدہ طرح امن و امان بہ چار سوی شارستان بہ فشاند۔‘‘(وزیر نامہ از امیر علی خاں ص۳۸) جاری ہے....

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .